Nida Ansari

Add To collaction

چار دن اس حُسنِ مطلق کی رفاقت میں کٹے

چار دن اُس حُسنِ مُطلق کی رفاقت میں کٹے
اور اس کے بعد سب دن اُس کی حسرت میں کٹے

اس جگہ رہنا ہی کیوں ان شہریوں کے درمیاں
وقت سارا جس جگہ بے جا مروّت میں کٹے

اِک قیامِ دِلرُبا رستے میں ہم کو چاہیے
چاہے پھر باقی سفر راہِ مصیبت میں کٹے

چاند پیڑوں سے پرے ہو، رُک گئی ہوں بارشیں
کاش وہ لمحہ کبھی اُس بُت کی صحبت میں کٹے

کاٹنا مشکل بہت تھا ہجر کی شب کو منیرؔ
جیسے ساری زندگی غم کی حفاظت میں کٹے

   1
0 Comments